Orhan

Add To collaction

بھیگی پلکوں پر

”ہم جلد پاکستان آئیں گے بیٹا! آپ کی فیکٹری کیلئے میں نے مشینوں کی خریداری کا آرڈر دے دیا ہے ایک ماہ بعد ڈلیوری ہو جائے گی ،کنسٹرکشن کتنی باقی ہے؟“ فراز اس سے سیل فون پر مخاطب تھے۔
”ڈیڈی! کنسٹرکشن میں دو تین ہفتے لگیں گے صرف فائنل ٹچنگ ہو رہی ہے مشینری آنے تک وہ بھی مکمل ہو جائے گی پھر کچھ عرصہ ہمیں سیٹ اپ میں لگے گا۔“
”گڈ اور ہماری بہو کیسی ہے اب تو آپ پریشان نہیں کرتے پری کو؟“ ان کی مسکراتی آواز میں خاصی شوخی تھی۔
”آپ اپنی بہو سے خود پوچھ لیجئے گا وہ سچ بتائے گی آپ کو۔“ باپ کی شوخی پر وہ بھی مسکرا کر گویا ہوا۔
”پوچھا ہے میں نے پری سے وہ شاید آپ کو بچا رہی ہے۔“
”ہوں ،خاصی سمجھدار ہے وہ ڈیڈی! آپ نے کس طرح سے مما کو اس رشتے پر راضی کیا حالانکہ وہ تو دادی جان کی خواہش کو بھی خاطر میں نہ لائی تھیں۔


پری کو بہو بنانے سے صاف انکار کر چکی تھیں انہوں نے میری خواہش کو بھی کوئی اہمیت نہ دی تھی۔

“ اس کے لہجے میں کوئی شکوہ نہیں تجسس و اشتیاق تھا۔
”یہ سب میری لاعلمی میں ہوتا رہا ہے مذنہ سمجھ رہی تھی یہ بات میرے کانوں تک نہیں پہنچے گی کیونکہ آپ اور اماں جان مجھ تک یہ بات کبھی بھی پہنچاتے نہیں کہ اماں اپنی ناک کو عزیز رکھتی ہیں اور آپ اپنی اماں کی انا کو۔“ ان کے لہجے میں خفگی در آئی تھی۔
”ڈیڈی! ان سب سے زیادہ ہمیں آپ کی صحت و زندگی عزیز ہے ،آپ میجر آپریشن سے گزرے ہیں میں نہیں چاہتا تھا آپ معمولی سا بھی دکھ لیں آپ کے بغیر میں جینے کا تصور بھی نہیں کر سکتا۔
”اچھا اور اپنی محبت کے بغیر رہ لیتے؟ کیا میں جانتا نہیں ہوں آپ کو ہاں کس کشش نے روکا ہوا ہے ،اماں جان کی محبت میں وہاں ہمیشہ رہنے کی پلاننگ نہیں کی ہے آپ نے۔“ وہ ان کے بالکل درست تجزیئے پر خاصا حیران تھا وہ ان کی بارعب اور سنجیدہ و کم گو پرسنالٹی کے باعث خاصا دور رہتا تھا آج انہوں نے ثابت کر دیا تھا وہ دور رہ کر بھی اس کو بے حد قریب سے جانتے تھے اور یہ اس کیلئے حیرت کے ساتھ مسرت کی بھی بات تھی۔
”آئی ایم سرپرائز ڈیڈ! یہ سب آپ کو کیسے پتا چلا؟“
”یہ آپ کو ڈیڈ بننے کے بعد ہی پتا چلے گا کہ بچوں کی خواہش باپ کس طرح جان لیا کرتے ہیں۔“ وہ خلاف عادت قہقہہ لگا کر گویا ہوئے تو لمحے بھر کو وہ بغلیں جھانکنے لگا تھا۔
”لیکن بروقت آگاہ کرنے کیلئے میں صباحت کا ممنون ہوں۔ صباحت نے کال کرکے مجھے آپ کی پسند اور مذنہ کے انکار سے آگاہ کیا تھا پھر میں نے مذنہ کے سامنے کال کرکے اماں جان کو فوراً منگنی کرنے کا کہا جس پر انہوں نے اسی دن رد عمل دکھایا تھا۔
”صباحت آنٹی نے آپ کو فورس کیا تھا پھر ممی کا ری ایکشن کیا تھا؟“ صباحت کے نام پر اسے شدید جھٹکا لگا تھا۔
”صباحت نے فورس نہیں کیا تھا بلکہ ریکوئسٹ کی تھی کہ میں پری کو اپنی بہو بنا لوں ،مذنہ نے میرے فیصلے کو دل سے قبول کیا ہے۔“
###
اعوان نے جو کہا وہ نبھایا بھی تھا ،اس نے کرپٹ زمیندر کو ناکوں چنے چبوا دیئے تھے اس نے نہ صرف زمینوں پر سے قبضہ ختم کیا بلکہ مقدمہ واپس لے کر گلفام کو بھی بری کرایا تھا اور وہ شہر چھوڑ کر چلا گیا تھا۔
اعوان اپنی مہربانیوں کا کوئی صلہ لینے کے حق میں نہیں تھا وہ گلفام کو کورٹ سے مل کر چلا گیا تھا اس نے گلفام سے کہا تھا کہ اس کی فلائٹ ہے وہ کاروبار کے سلسلے میں جاپان جا رہا تھا۔ گلفام کو اس کی بات پر یقین آ گیا تھا اور اسے نہیں وہ جانتی تھی اعوان اس کی وجہ سے کترا رہا ہے ،اس پر بیتے گئے وقت کا ذمہ دار وہ خود کو سمجھتا تھا اور ہر ممکن اسے خوشیاں دینے کی سعی میں مگن رہتا تھا۔
”کیا سوچ رہے ہو گلفام؟“ وہ چپل اتارے ریت پر اسی کے ساتھ قدم سے قدم ملا کر چل رہی تھی ہلکی ہلکی لہریں ان کے قدموں میں مچل رہی تھیں اور ایک خوشگوار ٹھنڈک اس کی رگ و پے میں پھیلتی چلی جا رہی تھی وہ اس کا قرب پا کر بے حد خوش تھی۔
”میں نے تمہارے بغیر یہ زندگی کسی جیل میں قیدی کی طرح ہی گزاری تھی رخ! گھٹن میں پہلے جیتا آ رہا تھا تمہارے ملنے کے بعد میں ہواؤں میں اڑ رہا ہوں ،تمہیں پانے کے بعد زندگی سے کوئی گلہ نہیں رہا ہے مجھے۔
“ فرط جذبات سے وہ اس کا ہاتھ تھامے کہہ رہا تھا۔
”تمہیں یہ یقین تھا کہ میں تمہیں مل جاؤں گی؟ میری گزری زندگی کے بارے میں بھی جان کر مجھ سے نفرت نہیں ہوئی؟“ وہ ٹہلتے ہوئے خاصے دور نکل آئے تھے۔
آسمان پر چاند ستارے چمک رہے تھے ہوائیں بھیگی بھیگی تھیں دور گہرے پانیوں میں کوئی جہاز جا رہا تھا سیاہ سمندر کے سینے پر چمکتی اس کی روشنیاں نگاہوں کو بھلی لگ رہی تھیں۔
”میں نے تم سے محبت کی ہے رخ! تمہاری روح کو چاہا ہے اور جو سچی محبت کرتے ہیں ان کی طلب صرف محبوب ہوتا ہے محبت ہوتی ہے جسم و بدن کی چاہ چاہت نہیں محبت کی توہین ہوتی ہے۔“ مچلتی لہروں کی آواز میں گلفام کا گھمبیر لہجہ و عشق میں ڈوبی پرسوز آواز اس کے دل کے تاروں پر پیار کے راگ چھیڑ رہی تھی بے اختیار اس کی آنکھوں سے آنسو بہنے لگے تھے۔
”اپنی محبت ،اپنے جذبوں سے زیادہ اپنے رب پر یقین تھا میں جانتا تھا وہ سب کی سنتا ہے سب کو نوازتا ہے۔ کمی ہمارے جذبوں میں ہوتی ہے ہمارے مانگنے میں ہوتی ہے“
”جذبے میرے کھوٹے تھے ،مانگنا میں نہیں چاہتی تھی ،سزا تم کو مل گئی۔“ وہ اس کی بات سن کر کھل کر پہلی بار مسکرایا تھا۔
”بے صبری زیادہ اذیت ناک ہوتی ہے رخ! اس لئے میں صبر کے ساتھ دعائیں کرتا تھا ،میں نے یہ سوچا اس وقت تم کو حاصل کر لیتا تو پھر میں اس طرح تمہاری محبت کی بوند بوند نہ چکھتا ،پا لینے کی سرشاری وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ گھٹتی جاتی ہے اور کھو دینے کا ملال وقت بیتنے کے ساتھ ساتھ بڑھتا جاتا ہے۔
”اب تمام ملال دل سے نکال دو ،گلفام! میں مرتے دم تک تم کو وہ ہر خوشی دینے کوشش کروں گی جو میں دے سکی ہوں۔“
”پہلے تو تم مجھے گلفام کہنا بند کرو۔“ وہ گویا ہوا۔
”تم کو میرا گلفام پکارنا اچھا نہیں لگتا ہے؟“
”نہیں ،بالکل بھی نہیں۔ اب کبھی اس نام سے نہیں پکارنا۔“
”اچھا ،پھر کس نام سے پکاروں؟“
”وہ ہی جو تمہارے منہ سے سننے کا عادی ہوں ،سیاہ فام…“ اس نے مسکراتے ہوئے خواہش ظاہر کی تھی۔
”میں تب گمراہ تھی باطن کی سچائی اندر کی روشنی سے نابلد ،ہر چمکتی چیز کو سونا سمجھنے والی زر پرست لڑکی ،جب ہی تمہارے سونے جیسے دل کو نہ دیکھ سکی تھی اور سیاہ فام کہتی تھی… کس قدر بے حس و خود غرض تھی۔“ چاند کی روشنی اس کے چہرے پرپڑ رہی تھی چہرے پر پھیلا حزن نمایاں تھا،گلفام نے اس کے ہاتھوں کو تھامتے ہوئے کہا۔
”ماضی کی تلخ یادوں کو بھول جاؤ ماہ رخ!“
”کاش! ماضی کی یادوں کو بھلانا اتنا ہی آسان ہوتا تو میں کب کی بھلا چکی ہوتی مگر وہ ایک کسک بن کر میرے ساتھ زندہ رہے گا ،غلطیاں ہم ازخود کریں یا انجانے میں سزا ضرور بھگتنی پڑتی ہے۔
”سزا بھگت لی ہے تم نے رخ! بس اب اللہ سے ایسی ہدایت طلب کرو جس کے بعد گمراہی نہ ہو۔ خیر ہی خیر ہو ،خوشیاں ہی خوشیاں ہوں۔“
”گلفام! کیا اللہ مجھے معاف کر سکتا ہے؟ کیا اللہ مجھ سے کبھی راضی ہو جائے گا؟ مجھ جیسی گناہگار بندی کو معافی مل جائے گی؟“
”وہ عظیم ہے
وہ رحیم ہے
وہ کریم ہے
اس کی رحمتوں کی کوئی حد نہیں وہ رب اپنے بندوں کی معافی کا منتظر رہتا ہے ،گناہوں سے معافی کا منتظر ہوتا ہے۔
بندہ چل کر اس کی طرف جاتا ہے وہ دوڑ کر اس کی طرف آتا ہے وہ جب نوازنے پر آتا ہے تو دامن تنگ پڑ جاتے ہیں۔“
”تم مجھے مل گئے ہو جبکہ تمہارے ملنے کی امید ہی نہ رکھی ،اس کا مقصد اللہ مجھ سے راضی ہوا ہے اس نے مجھے معاف کر دیا ہے۔“
”اچھا گمان رکھو ،پروردگار ہمارے گمان کے ساتھ ہوتا ہے ،تم نے مجھے بتایا تھا کہ کس طرح سے تم نے اس محلے میں رہنے والی لڑکی کی رات دن نگرانی کی ،اس لڑکی رجاء کو لٹنے سے بچایا ایک گھرانے کی عزت و آبرو کو بچایا تم نے اپنا چین و سکون برباد کر دیا تھا ،تم نے رجاء کی مدد کرکے اپنے رب کو راضی کیا۔
وہ خوش ہی ایسی نیکیوں سے ہوتا ہے۔“ چند لمحے خاموشی سے گزر گئے تھے ماہ رخ اپنے آنسو صاف کر رہی تھی ،وہ اپنی خواہشوں کی آگ میں جل کر خاک ہوئی تھی مگر خاک ہونے کے بعد اس کے اندر ایک نئی روشنی جل اٹھی تھی۔
ہدایت کی روشنی ،ایمان کا نور… یہ سب اسی کو حاصل ہوتا ہے جو پستی میں گرنے کے بعد بھی خود کو اندر سے پست نہیں ہونے دیتا۔
”عزت کو عوض اسے دولت کے انبار ملے تھے محلات کی پرآسائش زندگی ملی تھی ،اعلیٰ ملبوسات ،بہترین لوازمات ،سونا ،چاندی ،ہیروں کا ڈھیر تھا ،ان چیزوں کا اور وہ سب پاکر اسے احساس ہوا عورت کی اصل دولت اس کی اس کا وقار و خود داری ہوتی ہے۔
چوری چوری باندھے جانے والے بندھن عورت کو طوائف بنا دیتے ہیں۔
”آج موسم بے حد اچھا ہے رخ! کیوں نہ ہم آج ہی رشتہ ازدواج میں منسلک ہو جاتے ہیں ،اب میں زندگی کا ہر لمحہ تمہارے سنگ بھرپور طریقے سے جینا چاہتا ہوں ،تم نے بھی جدائی کی طویل خلیج عبور کی ہے ،میں بھی ہجر کے اذیت ناک لمحوں سے پل پل گھائل ہوتا رہا ہوں کیوں نہ آج اپنی تشنگی کو ہم چاہتوں کا روپ دے دیں۔“ اس نے سینے پر بازو باندھتے ہوئے سرگوشیانہ انداز میں کہا۔
”ہوں… میں بھی تھک گئی ہوں گلفام! ایک عرصے سے زندگی کو کسی بوجھ کی طرح گھسیٹتی ہوئی آئی ہوں۔ اب میں بھی تمہاری سنگت میں زندگی گزارنا چاہتی ہوں۔“ اس نے اس کے شانے پر سر رکھتے ہوئے طمانیت بھرے لہجے میں کہا ،دونوں بے پناہ خوش تھے۔

   1
0 Comments